ایران کا موجودہ نظام اور تھیوکریسی
⭕ایک تحقیق، ایک تجزیہ

تحریر: سید امتیاز علی رضوی

تھیوکریسی کی اصطلاح اصل میں یونانی علمی اصطلاح ہے۔ یونانی زبان میں Theo کا مطلب خدا  ہے، اور Logy علم کو کہا جاتا ہے، Cracy کے معنی ہیں حاکمیت۔لہذا Theology  کا لغوی مطلب ہو گا علم الہیات جبکہ Theoracyکا لغوی معنی ہے “خدا کی حاکمیت”۔

تھوکریسی کے لغوی معنی سے جس سیاسی نظام کا خاکہ ابھرتا ہے وہ خالق کائنات کے احکام کا اجراء ہے جو مذہبی معاشروں کے لئے قابل قبول ہے بلکہ مطلوب بھی ہے کیونکہ مذاہب کی بنیادی تعلیمات میں اس فانی  دنیا کے خالق و مالک کی حاکمیت کو قبول کیا گیا ہے  اور اس اصل و اصول کو تسلیم کیا گیا ہے کہ جہاں بھی حکومت قائم ہو وہ خداکے احکام کی پابندی کرے۔ لیکن جب اس بنیادی تصور کو عملی جامہ پہنانے کی بات آتی ہے تو اس میں ایک مشکل پیدا ہو جاتی ہے کہ خدا کے ان احکام کا تعین کون کرے گا؟ 

یہودی دنیا میں ان کے  مذہبی پیشواؤں کو یہ حق حاصل تھا کہ وہ مختلف معاملات میں خدا کی مرضی معلوم کر کے قانون سازی کریں ۔اگرچہ  اہل یہود  یہ سمجھتے تھے کہ خدا سپریم ہے اور اس کے جو احکامات حضرت موسی علیہ السلام کے ذریعے آئے ہیں وہیمملکت کا قانون ہوں گے لیکن وہ قوانین کیا ہیں یہ اختیار ایک مخصوص مذہبی طبقہ کو حاصل تھا جو احبار اور رھبان کے ٹائیٹل یا لقب سے پہچانے جاتے تھے اور ان کی بات ہی خدا کی بات سمجھی جاتی تھی گویا وہ خدا کا متبادل قرار دے دئے گئے تھے۔ جیسا کہ قرآن حکیم میں اس کی طرف اشارہ ہے:

اتَّخَذُوا أَحْبارَهُمْ وَرُهْبانَهُمْ أَرْباباً مِنْ دُونِ اللَّهِ [ التوبة/ 31] 
انہوں نے اللہ کو چھوڑ کر اپنے احبار اور رھبانوں کو خدا بنا لیا ہے۔ 
اس اختیار  کے ساتھ یہودی مذہبی پیشوا جو چاہتے "خدا کی مرضی "کے طور پر متعارف کروا دیتے اور ہر ایک کو اس کی اطاعت حکم خدا سمجھ کرکرنا ہوتی ۔ یوں یہودی دنیا میں ان کے مذہبی پیشوا خدائی قوت کا مرکز بن گئے۔ یہودی دنیا میں یہ بھی ہوا ہے کہ بعض مذہبی پیشواؤں کو حکمرانوں نے اپنی ساتھ ملایا اور ان کا یہ اختیار اپنی طرف منتقل کروا لیا ۔یعنی بادشاہ کی طرف سے یہ دعوی کیا گیا کہ فلاں پیشوا کو یہ الہام ہو گیا ہے کہ خدا کی مرضی معلوم کرنے کا اختیار اب بادشاہ کے حوالے کر دیا جائے ۔جس کے نتیجے میں یہ بات طے ہو گئی کہ اب بادشاہ جو کہے گا وہ خدائی قانون ہے ۔اس کے علاوہ کچھ اور نظریات بھی بنائے گئے جیسے یہ کہ بادشاہ کی تخلیق جنت میں ہوتی ہے لہذا یہ جنتی مخلوق ہے، خدا جس کو بادشاہ بناتا ہے، وہ خدا سے اپنا یہ اختیار لے کر دنیا میں آتا ہے لہذا وہ سب کے لئے واجب الاطاعت ہے، بالفرض اگر وہ ظلم بھی کر رہا ہے تو بھی تمام رعایا کو چاہئے کہ وہ اس ظلم اور جبر کو برداشت کریں اور اس کے خلاف بغاوت نہ کریں کیونکہ وہ یہ سب خدا کی  مرضی کے مطابق کر رہا ہے ۔ لہذا اہل یہود کے یہاں تھیوکریسی خدا کی حکمرانی سے بدل کر مذہبی پیشواوں کی مطلق العنانی یا ایسے بادشاہوں کی حکمرانی سے تعبیر کی جانے لگی جنہیں خدا کا نمائندہ سمجھا جاتا تھا۔ ایسا ہی کچھ حال عیسائی دنیا کا بھی تھا۔

رومن کیتھولک عیسائی دنیا میں چرچ کا سربراہ جو پوپ کہلاتا ہے، اسے یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ خدا کے احکام کا تعین کرے، چنانچہ اگر عیسائی دنیا میں تھیوکرسی کا نظام رائج ہو تو جس بات کو بھی پوپ خدا کا حکم قرار دیدے، حکومت کا سربراہ اسی پر حکم خدا سمجھ کرعمل کرنے پر مجبور ہے، اس طرح رومن کیتھولک عیسائیت میں تھیوکریسی کا عملی نتیجہ یہ ہوا کہ پوپ کی بات کو مانا جائے لہذا خدا کی حاکمیت کے لغوی معنی کو چھوڑ کر عیسائی دنیا میں بھی تھیوکریسی مذہبی پیشواؤں کی حاکمیت کے معنی میں استعمال ہوتی ہے اور آج کل دنیا میں رہنے والے تھیوکریسی کو اسی نئے معنی میں استعمال کرتے ہیں۔ چنانچہ اب تھیوکریسی کا ترجمہ’’مذہبی پیشواؤں کی حاکمیت‘‘ سے کیا جاتا ہے۔ انسائیکلوپیڈیا  بریٹانیکا کی تعریف کے مطابق: 
‏Theocracy is government by divine guidance or by officials who are regarded as divinely guided.
“تھیوکریسی ایک ایسی حکومت ہے جس کو آسمانی راہنمائی حاصل ہو یا یہ ایسے کارپردازوں کی حکومت ہو جنہیں یہ سمجھا جاتا ہو کہ انہیں آسمانی راہنمائی حاصل ہے”

روم کی عیسائی تھیوکریٹک حکومتوں کا نظام کچھ ایسا رہا ہے کہ حکمران تو بادشاہ ہی ہوا کرتا تھا لیکن وہ پوپ کے مذہبی احکام کا پابند تھا۔ یوں اکثر بادشاہ اور پوپ کے درمیان بکثرت اختلافات رہتے تھے اور چونکہ پوپ کو بلاشرکت غیرے مذہب کے احکام متعین کرنے کا مکمل اختیار حاصل تھا اور اس پر کوئی روک ٹوک بھی نہیں تھی اس لئے پوپ  اپنے اختیارات کا غلط استعمال بھی کیا کرتا تھا۔ ایسے لوگوں نے بڑی بے رحمانہ پالیسیاں اپنائیں جن کی وجہ سے پوری انسانیت کو جبر و تشدد کی گھٹی ہوئی فضا میں صدیاں گزارنا پڑیں۔ 

جب کلیسا یا چرچ کا لفظ بولا جاتا ہے تو اس سے مراد کوئی گرجا گھر نہیں ہوتا بلکہ کلیسا ایک مکمل مذہبی ادارہ ہے جو پوپ اور اس کے زیر دست پادریوں پر مشتمل ایک مکمل نظام ہے ۔ جہاں ماضی میں یہودی تھیوکریٹک حکومتوں میں عوامی رائے کی کوئی اہمیت نہ تھی وہاں کلیسا کے تحت تھیوکریسی چلانے والے مذہبیراہنماؤں نے بھی کبھی عوام کی رائے کو اہمیت نہیں دی کیونکہ وہ عوامی نمائندے نہیں ہوا کرتے تھے بلکہ پوپ کے نامزد کردہ ہوتے تھے۔

یہ اہل یہود اور کلیسا کے مذہبی راہنما حکومتی اُمور میںبھی کسی الہامی شریعت کے وضع کردہ قوانین کے پابند نہیں تھے کیونکہ ان کے پاس پوری جامعیت کے ساتھ ایسے  قوانین موجود ہی نہ تھے۔
اگرچہ اہل یہود کے پاس کچھ شرعی قوانین ضرور موجود ہیں جو تلمود اور چند دیگر کتابوں میں احبار اور رھبانوں کی سیرت سے اخذ کردہ ہیں  لیکن کلیسا کے پاس حضرت عیسیٰ کی چند اخلاقی تعلیمات کے سوا کوئی شریعت سرے سے ہے ہی نہیں بلکہ کلیسا نے تو  اہل یہود کے شرعی قوانین کو بھی منسوخ کر کے ایک آزاد اور غیر پابند مذہب کی بنیاد ڈالی تھی۔  اہل یہود کے پاس جو ہے وہ اپنے مذہبی راہنماؤں کی قدیم باتوں کے علاوہ کچھ نہیں لہذا اسرائیل جیسی کٹر یہودی حکومت میں بھی اہل یہود کی شریعت کے نفاذ کی کوئی بات نہیں کی جاتی  دوسری طرف کلیسا کے پاس باقاعدہ شریعت یا شرعی قوانین و احکام کا کیونکہ کوئی ایسا ضابطہ نہیں ہے  جسے دستورِ مملکت بنایا جاسکے۔ خلاصہ یہ کہ اہل یہود اور کلیسا کی مذہبی تھیوکریٹک حکومتوں میں ہوتا یہ تھا کہ وہاں کے مذہبی راہنما  اپنی مرضی سے اپنی خواہشات نفس کے مطابق قوانین بناتے تھے اور انہیں یہ کہہ کر نافذ کرتے تھے کہ یہ خدا کی طرف سے ہیں۔
اہل یہود اور کلیسا کا قانونِ شریعت کسی وحی و الہام سے ماخوذ نہ تھا، بلکہ خود ان کا اپنا گھڑا ہوا تھا۔ انہوں نے جو نظام عقائد، جو مذہبی اعمال و رسوم، جو معاشرتی ضوابط وغیرہ تجویز کیے تھے ان میں سے کسی کی سند بھی ان کے پاس الہامی کتاب سے نہ تھی۔ تھیوکریسی کے نام پر اہل یہود اور نظام کلیسا کے کارپردازوں کے لیے جو حقوق اور اختیارات تجویز کیے گئے تھے اور جو مذہبی ٹیکس عوام پر لگائے تھے ان کا بھی کوئی ماخذ ان کے پاس موجود نہ تھا۔ ایسا نظام تھیوکریسی کے نام سے مشہور ہوگیا جس میں خدا کے قوانین کے بجائے مذہب کے منصب داروں اور پیشواوں کی خواہشات اور ضروریات کا دخل تھا اور جس میں ان کی ذاتی ترجیحات اور ہوائے  نفس شامل تھی۔ 

ان مذہبی پیشواؤں نے خدا اور بندے کے درمیان مذہبی منصب داروں کے  ایک خود ساختہ مستقل واسطے کو لازمی قرار دیدیا تھا جو احبار، ربیوں اور کلیسا کے ایک مضبوط ادارے کی  شکل میں آج بھی موجود ہے البتہ آج کی نسلیں اس قسم کے واسطوں کو “رانگ نمبر” کی جدید اصطلاح کے ذریعے مسترد کر چکی ہیں اور ان ہی میں سے پروٹسٹنٹ عیسائی وجود میں آئے ہیں جنہوں نے پاپائیت کے نظام کو مسترد کر کے دین و سیاست کی جدائی کا سیکولر نظریہ پیش کیا ہے ۔ اس طرح گذشتہ کل  کی عیسائی دنیا آج یا تو لامذہب ہو چکی ہے یا پھر سیکولر جو دین کو ہر ایک کا ذاتی معاملہ سمجھتے ہیں۔ آج کی عیسائی دنیا میں تھیوکریٹک حکومت صرف اٹلی کے شہر روم کے  آدھاکلومیٹر  مربع  پر مشتمل قصبے ویٹکن سٹی تک محدود ہو کر رہ گئی ہے  جبکہ اہل یہود کی تھیوکریٹک حکومت تو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو صلیب پر چڑھانے کا داغ لئے آج تاریخ کے اوراق ہی میں ملتی ہے اور جیسا بیان ہوا کہ اسرائیل میں بھی حکومتی امور میں تلمود اور دیگر یہودی مذہبی احکام کو دخل دینے کی اجازت نہیں ہے۔ 

انسان چونکہ خلاف فطرت ہر عمل کو رد کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے لہذا کلیسا کے تھیوکریسی کے نام پر کئے جانے والے غیر فطری اقدامات کے پیشِ نظر مغربی عوام کے درمیان مذہب کے خلاف ایک بغاوت پیدا ہوئی جس نے  حکومت سے مذہب کی علیحدگی کے تصور کو تقویت دی  اور سیکولر نظام حکومت کا تصور معرض وجود میں آیا اور یوں تھیوکریسی کا لفظ ایک گالی بن کر رہ گیا، کیونکہ اس لفظ کو سنتے ہی عوام  کے ذہن میں مذہبی پیشوائیت اپنی ان تمام خرابیوں کے ساتھ  ابھر کر سامنے آتی ہے  جو اہل یہود نے بالعموم اور کلیسا کے ادارے نے پیدا کی تھیں۔ 

چونکہ تھیوکریسی کا لفظ اب اپنے لغوی معنی (خدا کی حکومت) سے ہٹ کر ایک خاص اصطلاحی معنی (مذہبی پیشواؤں کی مطلق العنان حکومت) میں استعمال ہونے لگا ہے لہذا اس لفظ کی حرمت اب نہ صرف ختم ہو گئی ہے بلکہ یہ لفظ بہت بدنام ہوگیا ہے اور  صرف اور صرف منفی معنی میں استعمال ہوتا ہے۔

اس لئے ہمارے مسلمان معاشرے میں بھی لوگ بکثرت یہ کہنے لگے ہیں کہ اسلام تھیوکریسی کا حامی نہیں ہے اور تھیوکریسی اسلام کے خلاف ہے لیکن یہ کہتے ہوئے  لوگ تھیوکریسی کے اصل تصور اور عیسائی اور یہودی دنیا کے اس کے عملی اطلا ق کے درمیان فرق نہیں کرتے چنانچہ جب یہ کہا جاتا ہے کہ پاکستان میں اسلامی حکومت قائم ہونی چاہئے، یا علماء سیاست میں حصہ لیتے ہیں تو تجدد پسند حلقوں کی طرف سے جھٹ یہ اعتراض کیا جاتا ہے کہ یہ لوگ ملک میں Theocracy قائم کرنا چاہتے ہیں اور ہم پاکستان میں Theocracy قائم نہیں ہونے دیں گے لیکن Theocracy کا مطلب کوئی سمجھاتا نہیں، نہ اعتراض کرنے والا اور نہ جواب دینے والا، اس کا نتیجہ یہ ہے کہ اس کے محاسن اور معائب سے باخبر ہوئے بغیر ایک نعرے کے طور پر یہ لفظ استعمال کیا جاتا ہے کہ اسلام میں تھیوکریسی نہیں ہے ۔ 

میری رائے اور سمجھ کے مطابق مسلم دنیا کے علماء اور متجددین کا یہ اختلاف ایک لفظی نزاع سے زیادہ کوئی حیثیت نہیں رکھتا کیونکہ اگر مسلم دنیا کے یہ اہل فکر اسلام کو ایک جامع اور کامل دین سمجھتے ہیں تو قرآن و سنت کی شکل میں موجود اسلام کے زندہ ذرائع استنباط حکم الہی کی موجودگی میں حکم خدا کو جاننے میں کیا مشکل ہے خصوصا اس وقت جب اسلام نے ہر قسم کی پاپائیت کو رد کیا ہے اور اسے شرک سے تعبیر کیا ہے اور کسی بھی طرح کسی مخصوص مذہبی طبقے کو کوئی خاص امتیاز نہیں دیا ہے لہذا تھیوکریسی بعنوان  مذہبی طبقے کی مطلق العنان حکومت ،مسلم دنیا کے لئے بھی ناقابل قبول ہے جبکہ تھیوکریسی بعنوان احکام خدا کا نفاذ  ایک مستحسن بات ہے خصوصاً جب آپ کا دعویٰ ہو کہ آپ کے پاس مکمل نظام موجود ہے۔ 

حقیقت یہ ہے کہ Theocracy اپنے لغوی اور اپنے اصل تصور کے لحاظ سے بالکل درست ہے کہ اس کائنات میں حاکمیت کا حق درحقیقت اللہ تعالیٰ کو حاصل ہے، اور انسان جو بھی حکومت قائم کرے اسے اللہ تعالیٰ کے احکام کے تابع ہونا چاہئے لیکن اسلام کے علاوہ دیگر مذاہب بشمول عیسائیت، یہودیت اور ہندو مذہب میں چونکہ اس تصور کو ٹھیک ٹھیک نافذ کرنے کا کوئی راستہ نہیں تھا اس لئے انہوں نے اسے بگاڑ کر مذہبی پیشواؤں کی حاکمیت میں تبدیل کردیا جس کا نتیجہ یہ ہے کہ آج جب تھیوکریسی کا نام لیا جاتا ہے تو اس سے کوئی بھی اللہ تعالیٰ کی حاکمیت کا مفہوم نہیں سمجھتا بلکہ اسے مذہبی پیشواؤں کی حاکمیت ہی سمجھا جاتا ہے چنانچہ سیاست کی اردو کتابوں میں بھی اس کاترجمہ مذہبی پیشوائیت کے نام سے کیا جاتا ہے اور ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ کے بجائے مذہبی پیشواؤں کو حاکمیت کا درجہ دیدینا وہ بدترین شرک ہے جس کی مذمت قرآن کریم نے بھی کی ہے۔ لہذا ہم بھی اس مضمون میں آئندہ تھیوکریسی کو اس کے رائج منفی معنی ہی میں استعمال کریں گے۔

یہ واضح ہے کہ اسلام عیسائیت کی طرح محض اخلاقی تعلیمات کا مجموعہ نہیں ہے، یہ زندگی کے ہر شعبے میں رہنمائی عطا کرتا ہے۔ ریاستی اُمور چلانے کے لئے اسلام کا اپنا ضابطہ حیات ہے۔ اسلام میں کلیسا کی طرح کوئی “Hierarchy” نہیں ہے جس میں پوپ، کا رڈینل، چیف بشپ، پادری یا فادر پر مبنی درجہ بہ درجہ کلیسائی نظم ہو۔ اسلام نے حکمرانی کا حق کسی مخصوص طبقہ کو تفویض نہیں کیا جو خدائی مشن کا نام لے کر اقتدار پر قابض ہوجائے اور اپنی من مانی کرتا پھرے۔ اسلام میں مطلوبہ صلاحیت رکھنے والے ہر شخص کو حکمران بننے کا حق ہے  چاہے اس کا کسی بھی نسل یا قبیلہ سے تعلق ہو۔ قریش کی حکمرانی کا تصور بھی ایک پیش گوئی کی حیثیت رکھتا ہے نہ کہ قابلیت کا معیار۔ 

اسلام میں ختم نبوت  کے بعد اور اہل تشیع میں زمانہ غیبت امام مہدی   میں  جو شخص بھی حکمراں بنایا جاتا ہے اس کی اصلی حیثیت ایک نائب ہی کی سی ہوتی ہے اور وہ تنقید سے بالاتر نہیں ہوتا ۔ قانون کی نگاہ میں اس کی حیثیت عام شہریوں کے برابر ہوتی ہے ، اس کے خلاف عدالت میں مقدمہ دائر کیا جاسکتا ہے اور وہ عدالت میں کسی امتیازی برتاؤ کا مستحق نہیں ہوتا۔ اسے مشورہ کے ساتھ کام کرنا ہوتا ہے۔

اہل مغرب کے تعصب کا حال یہ ہے کہ جب وہ کسی بھی موضوع سے متعلق مختلف نظریات کی تاریخ بیان کرتے ہیں تو ان میں اسلامی تعلیمات یا مسلمان مفکرین کی خدمات کاکوئی ذکر نہیں کرتے۔ سیاسی نظریات کی تاریخ میں بھی یہی ہوا ہے کہ وہ سیاسی نظریات کی تاریخ ارسطو اور افلاطون سے شروع کرتے ہیں اور پھر عیسائی دور پر پہنچنے کے بعد کئی صدیوں کی چھلانگ لگا کر وولٹائر، مونتیسکو اور روسو پر پہنچ جاتے ہیں اور اس بات کا کوئی ذکر تک نہیں کرتے کہ درمیان میں ایک طویل عرصہ اسلامی حکومتوں کا گزرا ہے جس میں سیاست کا ایک مختلف تصور پیش کیا گیا ہے۔ چنانچہ خدائی اصل کا نظریہ بیان کرتے ہوئے اس کے تحت صرف اس تھیوکریسی کی باتیں بیان کی جاتی ہیں جو یہودیوں، عیسائیوں یا ہندؤں کی تھیوکریسی سے متعلق ہیں لیکن اس بات کا کہیں ذکر و فکر نہیں ہے کہ اسلام میں اللہ تعالیٰ کی حاکمیت کو کس طرح سیاست کی بنیاد پر بنایا گیا ہے ۔ اگر صرف مورخانہ دیانت ہی پر عمل کرلیا جاتا تو کم از کم ایک نظریہ کے طور پر تو یہ بات ذکر کی جاتی کہ اسلام کا تصور سیاست کیا ہے اور اس کے تحت کس قسم کی حکومتیں قائم ہوئی ہیں؟ اور  حاکموں اور حزب مخالف کے درمیان کن باتوں پر اختلاف نظر ہوتا تھا خصوصاً امام حسین علیہ السلام کا  یزید  کی حکومت پر اصل اعتراض کیا تھا؟ اگر اسلام کی رو سے حاکم خدا کا نمائندہ تھا تو پھر یہ قیام نواسہ رسول کیوں ہوا؟

چونکہ عالم اسلام اپنے مذہب کو مکمل اور جامع سمجھتا ہے اور اس بات پر یقین رکھتا ہے کہ اس دین کے پاس اللہ کی ہدایت کردہ تعلیمات کا مجموعہ موجود ہے جو اصل میں انسانیت کی نجات کا ہی پروگرام ہے لہذا اسلامی ممالک میں اسلامی نظام کے نفاذ کے لئے کئی  تحریکیں اٹھیں جن کی تعداد کم نہیں ہے ۔ چونکہ  ان کی اکثریت ناکامی کا شکار رہی ہے لہذا اس سے یہ تاثر اُبھرا ہے کہ اسلامی نظام کی تشکیل عملی طور پر ممکن نہیں پھر صرف مذہبی رہنماؤں کا ان تحریکوں کی قیادت کرنا اور اس میں شدت پسندی کے رجحان کو داخل کرنا پھر ان افراد کا انتشار اور نفرت انگیزی اور مزاجوں میں سختی نے اس تاثر کو اور  بھی تقویت دی ہے کہ اسلامی نظام بھی قابل نفاذ نہیں ہے۔ اس تناظر میں اسلامی نظام کے نفاذ کے نعرے کو تھیوکریسی کی ہی ایک شکل سمجھا جانے لگا ہے یعنی اس نظام کا نفاذ یعنی ملاؤں کی من پسند اور سخت گیر حکومت جیسے حالیہ دنوں میں افغانستان میں طالبان اور عراق و و شام کے کچھ علاقوں میں داعش کی سخت گیر حکومتیں۔ 

امام خمینیؒ کی قیادت میں 1979 میں دنیائے اسلام کا پہلا عوامی و اسلامی انقلاب ایران میں رونما ہوا جس کے نتیجے میں مشرق وسطیٰ کا سب سے طاقتور شاہی نظام حکومت زمین بوس ہوگیا اور جمہوری اسلامی کے نام سے ایک نئی حکومت معرض وجود میں آئی ۔ چونکہ اس انقلاب کی قیادت مذہبی علماء کے ہاتھ میں تھی لہذا مغربی دنیا نے تو بلا جھجک اسے ایک تھیوکریٹک حکومت کے طور پر پیش کرنا شروع کردیا جس سے ہمارے خطے کے متجددین بھی متاثر ہوئے کیونکہ ان کے مطالعہ کے ذرائع زیادہ تر مغربی دنیا ہی سے جڑے ہوتے ہیں۔ دشمن تو تعصب کا شکار ہوتا ہی ہے یہاں انقلاب کے دوستوں نے بھی اپنی کم علمی یا سادگی کے باعث انقلابی حکومت کو ایک ایسی ٹھیوکریٹک حکومت کے طورپر پیش کیا جس میں ولی فقیہ کے پاس خدائی اختیارات ہوں اور وہ مافوق بشر کوئی ایسی شخصیت ہے جسے براہ راست خدا سے راہنمائی ملتی ہو پھر بشری تقاضوں کے عین مطابقانقلاب کی کچھ اہم شخصیات نے اپنے اختیارات کا ناجائز فائدہ اٹھایا تو اس عمل کی وجہ سے بھی دشمن کو اس اسلامی حکومت کو تھیوکریسی سے جوڑنے میں مدد ملی اور آج کے لٹریچر میں دنیا میں موجود تھیوکریٹک حکومتوں میں سر فہرست نام ایران کے نظام جمہوری اسلامی کا لیا جاتا ہے جو حقائق کے بالکل برخلاف ہے جو کہ ایک ظلم ہے جس میں اپنوںاور غیروں کا برابر کا حصہ ہے۔ اس مضمون کے بقیہ حصہ میں ہماری کوشش ہوگی کہ یہ ثابت کریں کہ کس طرح ایران کی موجودہ جمہوری اسلامی حکومت منفی معنوں میں تھیوکریٹک (ملاؤں کی مطلق العنان حکومت) نہیں ہے بلکہ جدید انسانی فطری اصولوں پر قائم ایک جمہورینظام ہے۔  

ایک تھیوکریٹک حکومت عوامی حمایت سے قائم نہیں ہوتی بلکہ وہ عوامی رائے کو خدائی فرامین سے متصادم گردانتی ہے جبکہ ایران میں انقلاب اسلامی کی کامیابی کا ایک بنیادی عنصر جمہوریت ہے۔ ایران کے اسلامی انقلاب کی تحریک ہو یا انقلاب کی کامیابی کے بعد اس کے راہنماؤں کے رویے سب کے سب اس انقلاب کے جمہوری ہونے کا اعلان بھی کرتے رہے ہیں۔ 

امام خمینی ؒ نے کبھی بھی یہ تاثر ابھرنے نہیں دیا کہ وہ کسی آسمانی قوت سے وابستہ ہیں اور وہاں سے الہام لے کر قوم کی راہنمائی کر رہے ہیں اگرچہ کچھ خوشآمدی اور چاپلوس اپنوں نے کئی ایسی کہانیاں گھڑی ہیں اور انہیں سادہ لوح لوگوں میں زبان زد عام کیا ہے۔ امام خمینی تو اصول پسنداور گہری سوچ رکھنے والے ایک ایسے لیڈر تھے جنہیں عوامی حمایت و تائید پر یقین تھا۔ ایران میں انقلاب کے ابتداء ہی سے امام خمینی نے عوام کے دل جیت لئے تھے اور یہ انقلاب خالصتاً عوامی حمایت و تائید سے ہی کامیاب ہوا تھا۔امام خمینی نے ایران میں اسلامی نظام کی بنیاد رکھ کر دنیا میں نئی حکمرانی کا طریقہ روشناس کرایا تھا جس کی نظیر تاریخ میں پہلے نہیں ملتی۔ اب جبکہ یہ ایک بالکل نیا نظام تھا تو اس پر تھیوکریسی کا لیبل لگانے کا کیا جواز بنتا ہے؟ امام خمینی نے اسلامی اصولوں پر استوار جمہوریت کو اس نئی طرز حکمرانی کا بنیادی عنصر قرار دیا اور واضح عوامی حمایت کے باوجود جمہوری اسلامی نظام کے نفاذ کے لئے ووٹ کے ذریعے عوامی حمایت و تائید حاصل کی اور ایک ریفرنڈم کروایا حتی حالت جنگ میں بھی عوامی پارلیمنٹ اور صدارتی انتخابات منعقد کروائے اور ان میں تاخیر کو نظام اسلامی کے خلاف ایک قدم سمجھا۔ ایک مرتبہ تو صدر، وزیراعظم سمیت پارلیمنٹ کے ۷۲ ممبران کو بم دھماکے سے اڑا دیا گیا تب بھی امام خمینی نے جمہوری سلسلے کو جاری و ساری رکھا اور ہر منصب کے لئے دوبارہ انتخابات کروائے۔

جدید مغربی تہذیب میں جمہوری نظام حکومت کو ایک بڑی اچھائی سمجھا جاتا ہے لہذا اسلام مخالف مغرب زدہ لوگ اسلامی ممالک میں استبدادی، آمرانہ اور مطلق العنانیت پر مبنی نظام ہائے حکومت پر ہمیشہ تنقید کرتے ہیں اور ایران کے اسلامی جمہوری نظام کے خلاف بھی  انہوں نے یہی پروپیگنڈا کیا کہ ایران کا انقلابی نظام حکومت جمہوری اور عوامی نہیں ہے۔ افسوس یہ ہے کہ متعدد اسلامی شدت پسندانہ نظریات کے حامل مذہبی لوگ بھی جمہوریت اور عوامی رائے کو سرے ہی سے خلاف شریعت کہہ کر اپنی نادانستگی میں اسلام دشمنوں کی حمایت کر تے ہیں اور ایران کی جمہوری اسلامی حکومت کا جو عوامی اور جمہوری چہرہ ہے اسے چھپا کر دشمن کی اس بات کی تائید کر جاتے ہیں کہ یہ حکومت ایک تھیوکریٹک حکومت ہے۔ 

انقلاب اسلامی ایران جدید دور میں اسلامی اور انسانی مذہبی تاریخ کا پہلا انقلاب ہے جو  عوامی بنیاد پر برپا کیا گیا ہے۔ ایران میں اس انقلاب کے بعد ایک نئے نظام کی تشکیل وتعمیرکے عمل کا آغاز ہوا۔ یہ نیا نظام نہ صرف جمہوری بلکہ مثالی جمہوری اصولوں پر قائم کیا گیا ہے ۔ ایسا نہیں ہے کہ یہ اسلامی جمہوریت مغربی ثقافت میں پھلنے پھولنے والی جمہوریت کا عین چربہ ہو بلکہ یہ جمہوریت خود اسلام کے متن سے نکلی ہے اور یہی اسلامی اور غیر اسلامی مذاہب میں فرق ہے۔ غیر اسلامی مذاہب میں الہی احکام کی اصالت گم ہو چکی ہے جبکہ مذہبی پیشواؤں  کی ذاتی خواہشوں اور تمایلات نے غالبا کر لیا ہے لیکن اسلام میں قرآن و حدیث کی اصلی ماخذ آج بھی موجود ہیں اور ملائیت اور مذہبی پپیشوائیت کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ فقاہت کا جو نظام اسلام میں موجود ہے اس کی اہمیت اکیڈمک ہے اور اجتہاد اور استنباط کی ایک ٹکنیک کا نام ہے جو زندہ دینی  مصادر سے حکم خدا کو اخذ کرنا ہے جس میں مجتہد یا فقیہ کے ذاتی تمایلات اور خواہشوں کا کوئی عمل دخل نہیں ہے۔ 

انقلاب اسلامی کے موجودہ رہبر آیت اللہ خامنہ ای نے امام خمینی (رہ) کی پچیسویں برسی کے موقع پر فرمایا: کسی کو یہ وہم و گمان نہیں ہونا چاہیے کہ حضرت امام خمینی (رہ) نے انتخابات کو مغربی ثقافت سے اخذ کیا اور پھر اسے اسلامی فکر کے ساتھ مخلوط کردیا کیونکہ اگر انتخابات اور جمہوریت،  اسلامی شریعت کے متن سے اخذ نہ ہوسکتی ، تو امام (رہ) اس بات کو واضح اور صریح طور پر بیان کردیتے۔

رہبر جمہوری اسلامی ایرانکے اس بیان سے واضح ہے کہ انقلاب، اسلامی اصول و روایات پر قائم ہے جن میں سے ایک جمہوریت ہے۔ اسی خطاب میں آپ نے مزید فرمایا:  اس سیاسی اور مدنی نظم کی حرکت جمہوریت کی بنیاد پر ہے جو اسی شریعت کا مظہر اور اسی سے برخاستہ ہے،اور عوام بالواسطہ یا بلا واسطہ ملک کے تمام حکمرانوں کو انتخاب کرتے ہیں۔

آیت اللہ خامنہ ای نے عرب دنیا میں بیداری کی تحریکیں اٹھنے کے موقع پر ایک خطاب میں فرمایا:
"وہ چیز جو ان ممالک کیلئے مددگار ثابت ہو سکتی ہے اسلامی جمہوریت کا نظریہ ہے۔ اسلامی جمہوریت کا نظریہ جو امام خمینی رہ کا عظیم کارنامہ ہے ان سب ممالک کیلئے بہترین نسخہ ثابت ہو سکتا ہے۔ اس میں جمہوریت بھی ہے اور اسکی بنیادیں بھی دین پر استوار ہیں"۔

تھیوکریسی اور جمہوریت ایک دوسرے کے متضاد  دو نظریات ہیں۔ جہاں تھیوکریسی ہوگی وہاں جمہوریت نہیں ہوگی اور جہاں جمہوریت ہوگی وہاں تھیوکریسی نہیں ہوگی۔ جمہوری اسلامی ایران کے نادان دوست یہ کہہ کر کہ جمہوریت اسلام سے متصادم ہے ، جمہوری اسلامی کے بنیادی نظریہ ہی کی نفی کر دیتے ہیں دوسری طرف دشمن یہ کہتے ہیں کہ ایران میں صرف جمہوریت کا نام ہے کیونکہ وہاں جمہوری تقاضوں کو پورا نہیں کیا جاتا۔ 

اب  ہم یہ جائزہ لیں کہ جمہوری اسلامی ایران جمہوریت کے تقاضوں کو پورا کرتا ہے یا نہیں تاکہ پہلی صورت میں یہ ثابت ہو جائے کہ وہاں تھیوکریٹک حکومت نہیں ہے اور دوسری صورت دلیل بنے کہ وہاں تھیوکریسی ہے۔ پہلے بہتر یہ ہے کہ اجمالی طور پر جمہوریت اور جمہوری نظاموں کو سمجھ لیا جائے۔علمائے سیاست کے نزدیک کسی بھی جمہوری نظام حکومت میں عوام کو حکومت منتخب کرنے کا حق حاصل ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ جمہوری نظاموں میں عوام کو بنیادی حقوق حاصل ہوتے ہیں۔ منتخب نمائندے اپنے حلقے کی عوام کے سامنے جواب دہ ہوتا ہے۔ اسی طرح افراد پر قانون کی بالادستی جمہوریت کی بنیادی خصوصیت ہے۔ اگرچہ جمہوریت کی جامع تعریف میں خود علمائے سیاست کا بڑا اختلاف ہے، لیکن بحیثیت مجموعی اس سے ایسا نظام حکومت مراد ہے جس میں عوام کی رائے کو کسی نا کسی شکل میں حکومت کی پالیسیاں طے کرنے کے لیے بنیاد بنایا گیا ہو۔ لہذا ہم مذکورہ چار اصولوں پر نظام جمہوری اسلامی ایران کا جائزہ لیتے ہیں یعنی (۱) عوام کو حکمران منتخب کرنے کا حق حاصل ہونا (۲) عوام کو بنیادی حقوق ملنا (۳) عوامی نمائندوں کا اپنی عوام کے سامنے جوابدہ ہونا (۴) افراد پر قانون کی بالادستی ہونا۔ اگر یہ چار اصول اسلامی حکومت میں موجود و رائج ہیں تو ہم اطمینان سے کہہ سکتے ہیں کہ یہ نظام جمہوری ہے تھیوکریسی نہیں۔  

انقلاب کی کامیابی کے بعد سب سے پہلے جمہوری اسلامی کے قیام کے لئے ایک عوامی ریفرنڈم کرایا گیا۔ اگر کوئی تھیوکریٹک حکومت بنانا مقصود ہوتا تو عوام کو کہا جاتا کہ اب اللہ تعالی کے نمائندوں کے ہاتھ میں اختیار آگیا ہے لہذا کسی عوامی رائے کی اہمیت نہیں ہے جیسا کہ طالبان اور داعش کی حکومتوں کے قیام میں کیا گیا۔ کیا وہاں کسی عوامی ریفرنڈم کا ثبوت ملتا ہے۔ جمہوری اسلامی کے قیام کے لئے جو عوامی ریفرنڈم ہوا اس ریفرنڈم میں کامیابی کے بعد آئین ساز اسمبلی کے انتخابات ہوئے اور ان منتخب نمائندوں نے اسلامی جمہوری اصولوں پر مشتمل ایک نیا آئین مرتب کیا جویکم اپریل 1979 کے دن عوام کے سامنے منظوری کے لئے پیش کیا گیا۔ ایرانی عوام نے بھاری اکثریت سے اس نئے آئین کی منظوری دی۔ جمہوری نظاموں میں آئین کو عوام یا عوام کے نمائندے منظور کرتے ہیں اورایران میں جو آئین اب رائج ہے وہ عوامی منظوری سے نافذ ہوا ہے۔ لہذا اس لحاظ سے ایرانی انقلابی نظام جمہوری اصولوں پر قائم ہوا ہے اور پورے آئین میں دور دور تک تھیوکریسی کا شائبہ بھی نظر نہیں آتا۔ 

چونکہ ایران کے آئین کی رو سے رہبر کا منصب  سب سے اعلیٰ اور برتر ہے اور اسے فقیہ ہونا چاہئیے  لہذا دشمن نے اس نکتہ کو اس جمہوری اسلامی نظام  پر تھیوکریسی کی تہمت لگانے کے لئے استعمال کیا جبکہ  رہبر کا تعین بھی انتخاب سے ہوتا ہے اور اس منصب کے لئے انتخاب ماہرین کی کونسل مجلس خبرگان کرتی ہے جو خود عوامی رائے سے منتخب ہوتی ہے اور عوامی ووٹ سے معرض وجود میں آتی ہے۔  یہی منتخب اسمبلی رہبر کے واجد الشرائط نہ رہنے پر اسے عزل بھی کر سکتی ہے۔ امام خمینی کی رحلت کے بعد موجودہ رہبر کا انتخاب مجلس خبرگان نے آئین کے انہی اصولوں کو مد نظر رکھ کر کیا تھا اور اس زمانے میں موجود مسلمہ فقہا جنہیں مذہبی حوالے سے مراجع تقلید کہا جاتا ہے کو نظر انداز کرکے ایران کے صدر آیت اللہ خامنہ ای کو جو انتظامی اور سیاسی بصیرت کے حوالے سے مراجع تقلید سے بہتر تھے ، کو منتخب کیا تھا جو اس کا ایک عملی ثبوت ہے کہ رہبر کے انتخاب کے لئے صرف فقیہ ہونا شرط نہیں ہے بلکہ فقاہت کے ساتھ سیاسی بصیرت اور اچھا منتظم ہونا بھی لازمی ہے ۔ یاد رہے کہ جب موجودہ رہبر کا انتخاب کیا گیا تھا اس وقت کوئی بھی انہیں مرجع تقلید کے عنوان سے نہیں پہچانتا تھا اور نہ ہی ان کے نام کے ساتھ آیت اللہ کا لقب تھا بلکہ انہیں حجةالاسلام کے لقب سے پکارا جاتا تھا۔ خلاصہ کلام یہ کہ رہبر کا انتخاب مذہبی ادارہ (حوزہ علمیہ قُم) نہیں بلکہ منتخب آئینی اور سیاسی ادارہ (مجلس خبرگان) کرتا ہے جو اپنے مقررہ وقت پررہبر کے اپنے عہدے پر باقی رہنے یا نہ رہنے کا فیصلہ بھی کرتی ہے۔ اگر جمہوری اسلامی ایران کوئی تھیوکریٹک حکومت ہوتی تو اس میں رہبر اور سب سے اعلیٰ منصب دار کا کیا انتخاب کیا اس طرح کیاجاتا؟

 ایران میں صدر جمہوریہ کو بھی براہ راست عوامی ووٹ کے ذریعے منتخب کیا جاتا ہے۔ ایران کے موجودہ رہبرآیۃ اللہ خامنہ ای عوام کی منتخب مجلس خبرگان سے منصب رہبری کے لئے چنے جانے سے پہلے دومرتبہ ایران کے صدارتی منصب پر براہ راست انتخابات کے ذریعے بھاری اکثریت سے منتخب ہوچکے تھے۔

ایران میں مقننہ یعنی اسلامی مجلس شوریٰ کا انتخاب ہر چار سال بعد عوام بالغ رائے دہی کے اصول پر کرتے ہیں۔ انقلاب کی کامیابی سے لے کر آج تک ہمیشہ مجلس/پارلیمنٹ کا انتخاب آئینی تقاضوں کے مطابق وقت مقررہ پر ہوتا رہا ہے، چاہے جنگ ہویا امن۔ یہ منتخب صدر اپنی کابینہ کے وزراء کو نامزد کرتا ہے اورعوام کی منتخب مجلس کے سامنے منظوری کے لئے پیش کرتا ہے۔

ہر ترقی یافتہ جمہوری معاشرے اورملک کی طرح ایران میں بھی لوگوں کو آئینی آزادی اور بنیادی حقوق حاصل ہیں۔ عدلیہ ،انتظامیہ کے اثر سے آزاد ہے۔ قانونی مساوات بھی ہے اور قانون وآئین کی بالادستی بھی۔ نیچے سے لے کر صدر اور رہبر تک ہر کوئی دستور کا پابند ہے۔ ہرکسی حکومتی عہدہ دار کا کڑا احتساب ہوتا ہے۔ وزرا، صدر اور حکومتی عہدیدار سب پارلیمان کے سامنے جوابدہ ہیں۔صدر جمہوریہ،  پارلیمنٹ اور رہبر کے سامنے جوابدہ ہے ۔

ایران میں اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد جو نظام حکومت بنایا گیا اسے بعد میں نظام ولایت فقیہ کے نام سے شہرت ملی اگرچہ انقلابی تحریک اور آئین سازی کے مراحل میں نظام جمہوری اسلامی کی اصطلاح ہی استعمال کی جاتی تھی۔ یہ نظام ولایت فقیہ چونکہ نظام شہنشاہیت کو ہٹا کر آیا تھا لہذا کچھ لوگ یہ سمجھ بیٹھے کہ یہ نظام تھیوکریسی کی شکل ہے اور  آمریت ہی ہے جس میں شہنشاہ کی طرح ایک فقیہ کو مطلق العنان حاکم بنا دیا گیا ہے۔ مغرب نے بھی اس بات کو خوب اچھالا اور ایران میں رائج نظام کو غیر جمہوری اور تھیوکریٹک نظام کہہ کر اس کی اہمیت کو کم کرنے کی کوشش کی گئ۔جس سے ایران کے حامی انقلابی لوگ بھی دھوکے میں آگئے اور ولی فقیہ کو بادشاہ ہی کی طرح مطلق العنان سمجھنے لگے کہ جو اسلام اور خدا  کا نمائندہ بن کر جو جی میں آئے کر گذرے۔ جبکہ فقیہ کی بنیادی صفت یہ ہوتی ہے کہ وہ اپنے نفس پر کنٹرول رکھتا ہے اور وہ اپنے فیصلوں میں اپنی ہوگئے نفس کو داخل کر لے تو وہ خود بخود اس عہدے سے نا اہل ہو جاتا ہے۔ 

ذیل میں انقلاب اسلامی کے بانی امام خمینی کے دو اقوال نقل کرتے ہیں جس سے یہ غلط فہمی دور ہو جانا چاہئیے کہ ولی فقیہ کوئی مطلق العنان ڈکٹیٹر ہوتا ہے۔ 

امام خمینی نے فرمایا: ہم مطلق العنان (آمریت) کا خاتمہ چاہتے ہیں ہم نہیں چاہتے کہ (ہمارے ملک میں) آمریت ہو،ہم چاہتے ہیں کہ ولی فقیہ آمریت (مطلق العنانی) کے خلاف ہو، ولایت فقیہ ، آمریت کی ضد ہے نہ کہ آمریت۔ ( صحیفۂ امام، ج۱۰، ص۳۱۱)

ایک اور مقام پر آپ نے کہا: خدائی قانون کے علاوہ کسی کا قانون نہیں چلتا، اس کی حکومت سے ہٹ کر کسی کی حکومت نہیں ہے، نہ فقیہ اور نہ ہی غیر فقیہ کی۔ تمام قانون کے تحت عمل کرتے ہیں، ہم سب قانون کے اجراء کرنے والے ہیں۔ چاہے وہ فقیہ ہو یا غیر فقیہ سب کو قانون کے تحت ہونا چاہئے۔ (صحیفۂ امام، ج۱۰، ص۳۵۳)

تھیوکریسی کی آمرانہ حکومت میں تمام اختیارات ایک ہی شخص کے پاس ہوتے تھے جسے خدا کا نمائندہ یا ترجمان کہا جاتا ہے۔ علمائے سیاست نے ریاست کے اختیارات کو تین حصوں میں تقسیم کیا ہے، مقننہ، انتظامیہ، اور عدلیہ۔ عوامی جمہوری طرز حکومت میں یہ تینوں اختیارات کسی ایک شخص یا ادارے میں مرتکز نہیں ہونے چاہئیں، بلکہ تینوں ادارے ایک دوسرے سے آزاد اور خود مختار ہونے چاہئیں۔ چنانچہ جمہوریت میں مقننہ (یعنی قانون سازی) کا  اختیار پارلیمنٹ یا اسمبلی کو حاصل ہوتا ہے۔ قانون کے مطابق ملک کے نظم ونسق چلانے کا اختیار جس ادارہ کو حاصل ہوتا ہے اسے انتظامیہ یا عاملہ کہا جاتا ہے جس کا سربراہ صدارتی نظام میں صدر مملکت اور پارلیمانی نظام میں وزیر اعظم ہوتا ہے۔ قانون کی تشریح اور تنازعات کا تصفیہ کرنے والے ادارہ کا نام "عدلیہ" ہے جو ملک کی عدالتوں کی شکل میں وجود میں آتا ہے۔  ایران کی موجودہ حکومت میں بھی یہی تینوں ادارے مکمل خود مختاری کے ساتھ کام کر رہے ہیں۔ منتخب آزاد پارلیمنٹ موجود ہے جو قانون سازی کرتی ہے اور مقننہ کےمعاملات  میں انتظامیہ و عدلیہ مداخلت نہیں کرتے اسی طرح انتظامیہ مکمل اختیارات کے ساتھ کام کرتی ہے۔ براہ راست عوامی ووٹ سے منتخب صدر جمہوریہ انتظامیہ کی سربراہی کرتا ہے، اور انتظامی امور کو اپنی کابینہ کے ساتھ مل کر انجام دیتے ہیں۔ ایران کی عدلیہ بھی بے مثال ہے اور مکمل آزادی سے کام کرتی ہے۔ حتی اداروں کے درمیان اختلافات ہو جانے اور کسی ڈیڈ لاک آ جانے کی صورت میں بھی رہبر براہ راست مسئلہ کو حل نہیں کرتا بلکہ شوریٰ تشخیص مصلحت نظام کا ایک ادارہ بنایا گیا ہے جس نے ان مسائل کو حل کرنا ہوتا ہے۔ قارئین سے گذارش ہو گی کہ اندازہ لگائیں کہ جہاں یہ سب ادارے مستقل بنیادوں پر کام کر رہے ہوں تو وہاں کیا تھیوکریٹک حکومت ہوگی؟ 

تھیوکریسی کی آمرانہ حکومت میں تمام اختیارات ایک ہی شخص کے پاس ہوتے تھے جسے خدا کا نمائندہ یا ترجمان کہا جاتا ہے۔ علمائے سیاست نے ریاست کے اختیارات کو تین حصوں میں تقسیم کیا ہے، مقننہ، انتظامیہ، اور عدلیہ۔ عوامی جمہوری طرز حکومت میں یہ تینوں اختیارات کسی ایک شخص یا ادارے میں مرتکز نہیں ہونے چاہئیں، بلکہ تینوں ادارے ایک دوسرے سے آزاد اور خود مختار ہونے چاہئیں۔ چنانچہ جمہوریت میں مقننہ (یعنی قانون سازی) کا  اختیار پارلیمنٹ یا اسمبلی کو حاصل ہوتا ہے۔ قانون کے مطابق ملک کے نظم ونسق چلانے کا اختیار جس ادارہ کو حاصل ہوتا ہے اسے انتظامیہ یا عاملہ کہا جاتا ہے جس کا سربراہ صدارتی نظام میں صدر مملکت اور پارلیمانی نظام میں وزیر اعظم ہوتا ہے۔ قانون کی تشریح اور تنازعات کا تصفیہ کرنے والے ادارہ کا نام "عدلیہ" ہے جو ملک کی عدالتوں کی شکل میں وجود میں آتا ہے۔  ایران کی موجودہ حکومت میں بھی یہی تینوں ادارے مکمل خود مختاری کے ساتھ کام کر رہے ہیں۔ منتخب آزاد پارلیمنٹ موجود ہے جو قانون سازی کرتی ہے اور مقننہ کےمعاملات  میں انتظامیہ و عدلیہ مداخلت نہیں کرتے اسی طرح انتظامیہ مکمل اختیارات کے ساتھ کام کرتی ہے۔ براہ راست عوامی ووٹ سے منتخب صدر جمہوریہ انتظامیہ کی سربراہی کرتا ہے، اور انتظامی امور کو اپنی کابینہ کے ساتھ مل کر انجام دیتے ہیں۔ ایران کی عدلیہ بھی بے مثال ہے اور مکمل آزادی سے کام کرتی ہے۔ حتی اداروں کے درمیان اختلافات ہو جانے اور کسی ڈیڈ لاک آ جانے کی صورت میں بھی رہبر براہ راست مسئلہ کو حل نہیں کرتا بلکہ شوریٰ تشخیص مصلحت نظام کا ایک ادارہ بنایا گیا ہے جس نے ان مسائل کو حل کرنا ہوتا ہے۔ قارئین سے گذارش ہو گی کہ اندازہ لگائیں کہ جہاں یہ سب ادارے مستقل بنیادوں پر کام کر رہے ہوں تو وہاں کیا تھیوکریٹک حکومت ہوگی؟ 

ختم شُد
اکتوبر  ۲۰۱۹ء

 

 


افکار و نظریات: تھیوکریسی